سورۃ الضحیٰ

شیخ ڈاکٹر یاسر قاضی کی تفسیر

پس منظر:
حضرت محمد ﷺ پر ایک وقت ایسا آیا جب کئی مہینے تک کوئی وحی نازل نہ ہوئی۔ کچھ علماء کے مطابق یہ وقفہ چھ ماہ تک جاری رہا۔ اس دوران، آپ ﷺ نے خود کو شک میں مبتلا پایا اور سوچا کہ شاید آپ ﷺ سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ اس موقع پر، ابولہب کی بیوی نے بھی آپ ﷺ کا مذاق اڑایا اور کہا، “تمہیں کوئی وحی نہیں ملی۔”

اس پریشان کن اور مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو تسلی دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے سورۃ الضحیٰ نازل فرمائی۔

پہلی تین آیات: بے قدری کے احساس کا علاج

اللہ تعالیٰ سورۃ الضحیٰ کا آغاز ان الفاظ سے فرماتے ہیں:

وَٱلضُّحَىٰ
“قسم ہے چاشت کے وقت کی،”

چاشت کی روشنی نئے آغاز، امید اور خوشی کی علامت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے تجدید اور اندھیروں کے خاتمے کی نشانی ہے، جو آپ ﷺ کی فکروں کو ختم کرنے کا اشارہ ہے۔

وَٱلَّيۡلِ إِذَا سَجَىٰ
“اور رات کی جب وہ چھا جائے،”

رات کی خاموشی، دنیا کی فکروں سے نجات کا وقت ہے، جو سکون اور غور و فکر کا موقع فراہم کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے چاشت کی روشنی اور رات کی خاموشی کی قسم کھا کر اندھیرے سے روشنی کی طرف کے اس سفر کو نمایاں کیا۔

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ
“آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا۔”

یہ خوبصورت آیت تمام منفی خیالات کو ختم کرتی ہے اور آپ ﷺ کو یقین دلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی وہ آپ سے ناراض ہوا ہے۔ اس پیغام کا اطلاق امت مسلمہ پر بھی ہوتا ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی نہیں چھوڑتا۔

زندگی اور آخرت: ایک نئی نظر

وَلَلۡأٓخِرَةُ خَيۡرٞ لَّكَ مِنَ ٱلۡأُولَىٰ
“اور بے شک آپ کے لیے آخرت دنیا سے بہتر ہے۔”

یہ آیت ہماری توجہ آخرت کی طرف مبذول کرواتی ہے، جو ہماری حقیقی منزل ہے، اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ یہ دنیا، اپنی تمام آزمائشوں کے باوجود، عارضی ہے۔

وَلَسَوۡفَ يُعۡطِيكَ رَبُّكَ فَتَرۡضَىٰٓ
“اور آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔”

اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عطا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں جو ہمیں خوش کرے گا، نہ کہ وہ جو ہم چاہتے ہیں، بلکہ وہ جو ہمارے لیے بہتر ہے۔

اللہ کی نعمتوں پر غور

اللہ تعالیٰ تین سوالات کے ذریعے آپ ﷺ اور ہمیں اپنی نعمتوں کی یاد دہانی کراتے ہیں:

أَلَمۡ يَجِدۡكَ يَتِيمٗا فَـَٔاوَىٰ
“کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا اور پناہ نہیں دی؟”

وَوَجَدَكَ ضَآلّٗا فَهَدَىٰ
“اور اس نے آپ کو راستہ بھٹکا ہوا پایا اور ہدایت دی،”

وَوَجَدَكَ عَآئِلٗا فَأَغۡنَىٰ
“اور اس نے آپ کو محتاج پایا اور غنی کر دیا۔”

یہ سوالات اللہ تعالیٰ کی مسلسل نعمتوں کی یاد دہانی ہیں، جو ہماری زندگیوں میں ہمیشہ موجود رہی ہیں۔ باوجود مشکلات کے، اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہماری مدد، رہنمائی اور ضروریات کو پورا کیا ہے۔

مثبت کردار اور شکرگزاری

اگلی تین آیات ہمیں مثبت کردار ادا کرنے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرنے کی اہمیت بتاتی ہیں:

فَأَمَّا ٱلۡيَتِيمَ فَلَا تَقۡهَرۡ
“تو یتیم پر سختی نہ کرنا،”

وَأَمَّا ٱلسَّآئِلَ فَلَا تَنۡهَرۡ
“اور سائل کو نہ جھڑکنا،”

وَأَمَّا بِنِعۡمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثۡ
“اور اپنے رب کی نعمت کا تذکرہ کرتے رہنا۔”

ہمیں یتیموں کے ساتھ شفقت اور نرمی برتنے، سائلین کے ساتھ سخاوت اور محبت سے پیش آنے، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں خوشی اور سکون پیدا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

سورۃ الضحیٰ کی تفسیر

سورۃ الضحیٰ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ موجود محبت اور مدد کی یاد دلاتی ہے، اور ہمیں مثبت، شکر گزار اور ہمدرد رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں اپنی نعمتوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، دوسروں کی زندگیوں میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *